سود و زیاں کا اب تو احساس مٹ گیا ہے
غفلت یہ کیسی چھائی نہ ہوش کچھ رہا ہے
ہم نے سَراب کو تو پانی سمجھ لیا ہے
اپنی ہی بے حسی سے گلشن اجڑ گیا ہے
کشتی پھنسی بھنور میں نہ مل سکے کنارا
ان کے سوا تو چارہ نہ کچھ بھی سوجھتا ہے
کیسے ملے گی عزت کیسے ملے گی عظمت
ان سے ہمارا ناطہ جب ٹوٹ ہی چکا ہے
اپنی روش بدلنا ہے وقت کا تقاضا
غفلت سے باز رہنا اس میں ہی تو بھلا ہے
مل جائے درد ان کا ہے جستجو ہماری
ان کے ہی نام پر تو یہ جان بھی فدا ہے
بس اثر کی ہمیشہ انجام پر نظر ہے
جیسا کیا ہے جس نے ویسا صلہ ملا ہے