سوچا ہے اب کے چشم قمر لے کے آؤں گی
میں زندہ ہوں تو ابر و گہر لے کے آؤں گی
امید تو نہیں کہ میسر ہو تیری دید
موجِ ہوا سے تیری خبر لے کے آؤں گی
صحرا دِکھائی دیتا ہے حدِ نگاہ تک
اس کے لئے میں دیدہء تر لے کے آؤں گی
کانٹوں کے درمیاں سے نکالوں گی راستہ
اور واپسی پہ پھولوں کو گھر لے کے آؤں گی
پتھر ہیں تیرے شہر کے لوگوں کے ذہن و دل
پیغامِ درد تیرے نگر لے کے آؤں گی
تو صاحبِ کمال ہے اے کاشفِ حیات
میں تیری آنکھ ، تیری نظر لے کے آؤں گی
منزل پہ جا کے کھولنا یادوں کی پوٹلی
اس کو بطورِ زادِ سفر لے کے آؤں گی