سوچتا ہوں کےمحبت سے کنارا کر لَوں
دل کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں
سوچتا ہوں کہ محبتہے جنونِ رسوا
چند بے کار سے بیہودہ خیالوں کا ہجوم
ایک آزاد کو پابند بنانے کی ہوس
ایک بیگانے کو اپنانے کی سعیِ موہوم
سوچتا ہوں کہ محبت ہے سرور و مستی
اس کا مٹ جانا مٹا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کے محبت سے ہے تابندہ حیات
اور یہ شمع بجھا دینا بہت مشکل ہے
سوچتا ہوں کہ محبت پہ کڑی شرطیں ہیں
اس تمدن میں مسرت پہ بڑی شرطیں ہیں
سوچتا ہوں کہ محبت ہے اک افسردہ سی لاش
چادرِ عزت و ناموس میں کفنائی ہوئی
دورِ سرمایہ کی روندی ہوئی رسوا ہستی
درگاہِ مذہب و اخلاق سے ٹھکرائی ہوئی
سوچتا ہوں کہ بشر اور محبت کا جنوں
ایسے بوسیدہ تمدن میں ہے اِک کارِ زبوں
سوچتا ہوں کہ محبت نہ بچے گی زندہ
پیش از وقت کہ سڑ جائے یہ گلتی ہوئی لاش
یہی بہتر ہے کہ بیگانہء اَلفت ہو کر
اپنے سینے میں کروں جذبہء نفرت کی تلاش
سوچتا ہوں کہ محبت سے کنارا کر لوں
خود کو بیگانہء ترغیبِ تمنا کر لوں