سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں