قانون امیروں کی لونڈی رہ گیا
انصاف گھر کی باندی ٹھہر رہ گیا
حال عوام کا کوئی نہ پوچھے
سب اپنے لگے سیاسی کارندے
چلو یوں بھی ہوتی ہےگرفتاریاں
ببے مقصد بلا وجہ, نظر بند رکھنا
نہ معلوم گرفتاریاں, نہ معلوم پابندیاں
ضمیر ہی نہیں خریدے جاتے ایمان بھی
سمجھ آئی مجھ کو بلاوجہ سیاسی مقدمات
سیاسی افکار یوں ٹھوکے اپنوں کی ہی منجی
نہ عوامی مفادات نہ دوسروں کے تحفظات
یہ سیاسی تدبر کے کھلاڑی سوچے اپنے حصار
جیل تو ایک بہانہ ہے مقصد الیکشن جتوانا ہے
کبھی کیس واپس لیں کبھی کیس داغ دیں
اگر یو ہی چلتی رہیں گرفتاریاں
آنے والا الیکشن تو واڑ ہی گیا
ہے ہوس,لالچ طاقت اور اقتدار کی یہاں
ہے گھمنڈ دوسروں کو نیچا ہی دکھانا یہاں
نظام عدل رسوا ہوا سیاسی استمارکے ہاتھوں میں
کبھی ضمانت, کبھی سزا ,کبھی کھلی چھٹی