اے بدمست
جنگل کے نجس درندے
کب تک تو
پاک خون کے قطروں
سے اپنی پیاس
بجھائے گا
کب تک
اپنے گھناؤنے جرم سے
اپنی آمرانہ سطنت کو
طول دے گا
کب تک
فطرت کی رعنائیوں کو
پامال کرے گا
اے ظالم ستمگر
کب تک
اپنی بد اعمالیوں اور
گھناؤنے کردار سے
کلیوں کا روپ
مسلے گا
اے انسانیت کا
خون کرنے والے
طاغوت
کب تک
اپنی بدکرداری سے
میری قوم کے
عزم و استقلال
کو آزمائے گا
اے پاک قوم کی
پیشانی پے
بدنما داغ تو
کب تک
اپنے شل ہوتے
ہوئے ہاتھوں سے
یہ خون کی ہولی
کھیلے گا
اے خوف کے کھلاڑی
ظلم کی اس بساط
پر تو
کب تک
آتش غم بھڑکا ئے گا
اے رات کے لٹیرے
شاید تجھے معلوم نہیں
اس قوم کی قوت ارادہ
تیرے ہر ستم کے آگے
سیسہ پلائی دیوار ہے