سیلف میڈ لوگوں کا المیہ
Poet: امجد اسلام امجد By: sumera ataria, GUDDU
روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ھے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو
راہ سے ہٹانے میں
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں
عمر کاٹ دیتے ھیں
عمر کاٹ دیتے ھیں
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ھیں
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ھیں
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ھیں
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ھیں
یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا
کچھ صلہ نہیں ملتا
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا
زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ھیں
سب ھی ھاتھ آتی ھیں
سب ھی مل بھی جاتی ھیں
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں
یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے
لیکن اس طرح جیسے
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے
اصل جو عبارت ھو ۔ ۔ پسِ نوشت ھو جائے
فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ھیں
ان کے صحن میں سورج ۔ ۔ دیر سے نکلتے ھیں
اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے
اس تک آتی ہے تو ہر چیز ٹھہر جاتی ہے
جیسے پانا ہی اسے اصل میں مر جانا ہے
بول اے شام سفر رنگ رہائی کیا ہے
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
کون ابھرتے ہوئے مہتاب کا رستہ روکے
اس کو ہر طور سوئے دشت سحر جانا ہے
میں کھلا ہوں تو اسی خاک میں ملنا ہے مجھے
وہ تو خوشبو ہے اسے اگلے نگر جانا ہے
وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
دھوپ آنکھوں تک آ جائے تو خواب بکھرنے لگتے ہیں
انسانوں کے روپ میں جس دم سائے بھٹکیں سڑکوں پر
خوابوں سے دل چہروں سے آئینے ڈرنے لگتے ہیں
کیا ہو جاتا ہے ان ہنستے جیتے جاگتے لوگوں کو
بیٹھے بیٹھے کیوں یہ خود سے باتیں کرنے لگتے ہیں
عشق کی اپنی ہی رسمیں ہیں دوست کی خاطر ہاتھوں میں
جیتنے والے پتے بھی ہوں پھر بھی ہرنے لگتے ہیں
دیکھے ہوئے وہ سارے منظر نئے نئے دکھلائی دیں
ڈھلتی عمر کی سیڑھی سے جب لوگ اترنے لگتے ہیں
بیداری آسان نہیں ہے آنکھیں کھلتے ہی امجدؔ
قدم قدم ہم سپنوں کے جرمانے بھرنے لگتے ہیں
ظلم ہوتا ہے کہیں اور کہیں دیکھتے ہیں
تیر آیا تھا جدھر سے یہ مرے شہر کے لوگ
کتنے سادا ہیں کہ مرہم بھی وہیں دیکھتے ہیں
کیا ہوا وقت کا دعویٰ کہ ہر اک اگلے برس
ہم اسے اور حسیں اور حسیں دیکھتے ہیں
اس گلی میں ہمیں یوں ہی تو نہیں دل کی تلاش
جس جگہ کھوئے کوئی چیز وہیں دیکھتے ہیں
شاید اس بار ملے کوئی بشارت امجدؔ
آئیے پھر سے مقدر کی جبیں دیکھتے ہیں






