سینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
Poet: جگر مراد آبادی By: Zaid, Hyderabadسینے میں اگر ہو دل بیدار محبت
ہر سانس ہے پیغمبر اسرار محبت
وہ بھی ہوئے جاتے ہیں طرفدار محبت
اچھے نظر آتے نہیں آثار محبت
ہشیار ہو اے بے خود و سرشار محبت
اظہار محبت! ارے اظہار محبت
تا دیر نہ ہو دل بھی خبردار محبت
اک یہ بھی ہے انداز فسوں کار محبت
توہین نگاہ کرم یار کہاں تک
دم لینے دے اے لذت آزار محبت
سب پھونک دیئے خار و خس مذہب و ملت
اللہ رے یک شعلۂ رخسار محبت
کونین سے کیا اہل محبت کو سروکار
کونین ہے خود حاشیہ بردار محبت
جو عرش کی رفعت کو بھی اس در پہ جھکا دے
ایسا بھی کوئی جذبۂ سرشار محبت
میں نے انہیں تاریک فضاؤں میں بھی اکثر
دیکھے ہیں برستے ہوئے انوار محبت
ناصح کو ہے کیوں میری محبت سے سروکار
چہرے سے تو کھلتے نہیں آثار محبت
میں اور یہ نمکین غم عشق ارے توبہ
تو اور یہ احساس گراں بار محبت!
اب عرض محبت کی جگرؔ کیوں نہیں جرأت
وہ سامنے ہیں گرم ہے بازار محبت
تجھ سے زیادہ درد ترا کامیاب ہے
عاشق کی بے دلی کا تغافل نہیں جواب
اس کا بس ایک جوش محبت جواب ہے
تیری عنایتیں کہ نہیں نذر جاں قبول
تیری نوازشیں کہ زمانہ خراب ہے
اے حسن اپنی حوصلہ افزائیاں تو دیکھ
مانا کہ چشم شوق بہت بے حجاب ہے
میں عشق بے نیاز ہوں تم حسن بے پناہ
میرا جواب ہے نہ تمہارا جواب ہے
مے خانہ ہے اسی کا یہ دنیا اسی کی ہے
جس تشنہ لب کے ہاتھ میں جام شراب ہے
اس سے دل تباہ کی روداد کیا کہوں
جو یہ نہ سن سکے کہ زمانہ خراب ہے
اے محتسب نہ پھینک مرے محتسب نہ پھینک
ظالم شراب ہے ارے ظالم شراب ہے
اپنے حدود سے نہ بڑھے کوئی عشق میں
جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے
وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج
دل مانتا نہیں کہ نظر کامیاب ہے
میری نگاہ شوق بھی کچھ کم نہیں مگر
پھر بھی ترا شباب ترا ہی شباب ہے
مانوس اعتبار کرم کیوں کیا مجھے
اب ہر خطائے شوق اسی کا جواب ہے
میں اس کا آئینہ ہوں وہ ہے میرا آئینہ
میری نظر سے اس کی نظر کامیاب ہے
تنہائی فراق کے قربان جائیے
میں ہوں خیال یار ہے چشم پر آب ہے
سرمایۂ فراق جگرؔ آہ کچھ نہ پوچھ
اب جان ہے سو اپنے لیے خود عذاب ہے
ماہتاب آفتاب ہیں ہم لوگ
گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ
یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ
شام سے آ گئے جو پینے پر
صبح تک آفتاب ہیں ہم لوگ
ہم کو دعوائے عشق بازی ہے
مستحق عذاب ہیں ہم لوگ
ناز کرتی ہے خانہ ویرانی
ایسے خانہ خراب ہیں ہم لوگ
ہم نہیں جانتے خزاں کیا ہے
کشتگان شباب ہیں ہم لوگ
تو ہمارا جواب ہے تنہا
اور تیرا جواب ہیں ہم لوگ
تو ہے دریائے حسن و محبوبی
شکل موج و حباب ہیں ہم لوگ
گو سراپا حجاب ہیں پھر بھی
تیرے رخ کی نقاب ہیں ہم لوگ
خوب ہم جانتے ہیں اپنی قدر
تیرے نا کامیاب ہیں ہم لوگ
ہم سے غفلت نہ ہو تو پھر کیا ہو
رہرو ملک خواب ہیں ہم لوگ
جانتا بھی ہے اس کو تو واعظ
جس کے مست و خراب ہیں ہم لوگ
ہم پہ نازل ہوا صحیفۂ عشق
صاحبان کتاب ہیں ہم لوگ
ہر حقیقت سے جو گزر جائیں
وہ صداقت مآب ہیں ہم لوگ
جب ملی آنکھ ہوش کھو بیٹھے
کتنے حاضر جواب ہیں ہم لوگ
ہم سے پوچھو جگرؔ کی سر مستی
محرم آں جناب ہیں ہم لوگ
زندگی سے روٹھ جانا چاہیئے
ہمت قاتل بڑھانا چاہیئے
زیر خنجر مسکرانا چاہیئے
زندگی ہے نام جہد و جنگ کا
موت کیا ہے بھول جانا چاہیئے
ہے انہیں دھوکوں سے دل کی زندگی
جو حسیں دھوکا ہو کھانا چاہیئے
لذتیں ہیں دشمن اوج کمال
کلفتوں سے جی لگانا چاہیئے
ان سے ملنے کو تو کیا کہئے جگرؔ
خود سے ملنے کو زمانا چاہیئے
جو صید کا عالم وہی صیاد کا عالم
اف رنگ رخ بانی بیداد کا عالم
جیسے کسی مظلوم کی فریاد کا عالم
پہروں سے دھڑکنے کی بھی آتی نہیں آواز
کیا جانئے کیا ہے دل ناشاد کا عالم
منصور تو سر دے کے سبک ہو گیا لیکن
جلاد سے پوچھے کوئی جلاد کا عالم
میں اور ترے ہجر مسلسل کی شکایت
تیرا ہی تو عالم ہے تیری یاد کا عالم
کیا جانیے کیا ہے مری معراج مقامی
عالم تو ہے صرف اک مری افتاد کا عالم
ارباب چمن سے نہیں پوچھو یہ چمن سے
کہتے ہیں کسے نکہت برباد کا عالم
کیوں آتش گل میرے نشیمن کو جلائے
تنکوں میں ہے خود برق چمن زاد کا عالم
خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے
حسن ازل کی شان دکھا کر چلے گئے
اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے
چہرے تک آستین وہ لا کر چلے گئے
کیا راز تھا کہ جس کو چھپا کر چلے گئے
رگ رگ میں اس طرح وہ سما کر چلے گئے
جیسے مجھی کو مجھ سے چرا کر چلے گئے
میری حیات عشق کو دے کر جنون شوق
مجھ کو تمام ہوش بنا کر چلے گئے
سمجھا کے پستیاں مرے اوج کمال کی
اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے
اپنے فروغ حسن کی دکھلا کے وسعتیں
میرے حدود شوق بڑھا کر چلے گئے
ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے
آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے
آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے
آئے تھے چشم شوق کی حسرت نکالنے
سر تا قدم نگاہ بنا کر چلے گئے
اب کاروبار عشق سے فرصت مجھے کہاں
کونین کا وہ درد بڑھا کر چلے گئے
شکر کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے
لب تھرتھرا کے رہ گئے لیکن وہ اے جگرؔ
جاتے ہوئے نگاہ ملا کر چلے گئے






