شاعر جمع ہیں بزم سخن ہے سجی ہوئی
فقروں کی فکر وغور میں جاں پر بنی ہوئی
کافی کی طرح کیف میں لبریز قافیے
شیروں کی طرح شعر کے پر ہول سلسلے
یہ میر نے کیا ایک غزل اس پہ کہی ہے
عطار کے لونڈے کی دوا خوب بکی ہے
وہ درد کسی درد سے گبھرا کے اٹھے ہیں
افسردہ شعر سارے ڈگمگا کے اٹھے ہیں
آتش نے کی جو دھیرے سے بلبل سے گفتگو
بلبل کا خاوند ہو گیا آتش کے روبرو
آتش نے بچائی بڑی مشکل سے آبرو
عمر عزیز کٹ گئی کرتے ہوئے رفو
لو آ گئے وہ داغ ندامت لئے ہوے
“یا وہ جگہ بتا دے“ کی حسرت لئے ہوے
غالب پڑے ہیں حقے کا ساماں کئے ہوے
لیٹے ہیں بس تصور جاناں کئے ہوئے
بھاڑوں میں کہیں پھینک چکے انتظار کو
اب کوستے ہیں آرزوئے وصل یار کو