شام ڈھلے جب بستی والے لوٹ کے گھر کو آتے ہیں
آہٹ آہٹ دستک دستک کیا کیا ہم گھبراتے ہیں
اہل جنوں تو دل کی صدا پر جان سے اپنی جا بھی چکے
اہل خرد اب جانے ہم کو کیا سمجھانے آتے ہیں
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
جس کی ہر اک اینٹ میں جذب ہیں ان کے اپنے ہی آنسو
وائے کہ اب وہ اہل دعا ہی اس محراب کو ڈھاتے ہیں
آج کی شب تو کٹ ہی چلی ہے خوابوں اور سرابوں میں
آنے والے دن اب دیکھیں کیا منظر دکھلاتے ہیں
ساری عمر ہی دل سے اپنا ایسا کچھ برتاؤ رہا
جیسے کھیل میں ہارنے والے بچے کو بہلاتے ہیں
نا ممکن کو ممکن امجدؔ اہل وفا ہی کر سکتے ہیں
پانی اور ہوا پر دیکھو کیا کیا نقش بناتے ہیں