شب فراق ہے اور ہم بھی غم کے مارے ہیں
تمہارے خواب ہی تنہائی کے سہارے ہیں
ہر اک خیال مرا آنسوؤں میں ڈھلتا ہے
یہ گیسو پھر بھی تری یاد میں سنوارے ہیں
وہ دور رہ کے بھی سانسوں سے بھی قریب رہے
بہت عجیب ہے اب تک وہ ہم کو پیارے ہیں
حیات اب تو یہی سوچتی گزرتی ہے
تمہاری طرح سے کیا ہم بھی تم کو پیارے ہیں
میں ان کو بھولنا چاہوں تو کس طرح بھولوں
مرے نصیب کے ٹوٹے ہوئے ستارے ہیں
گلہ نہیں ہے کسی سے جفا کا پھر بھی غزلؔ
کوئی بتائے تو کیا اب بھی وہ ہمارے ہیں