آئنہ منہ چڑھا رہا ہے
دھیرے دھیرے مسکا رہا ہے
شباب رخصت ہوا جا رہا ہے
نہ رہی آنکھیں وہ بات کرتی
نہ گالیں گلنار سی
نہ لعل شربتی سے ہونٹ
نہ سنہری روپہلی زلفیں
نہ وہ پیار کی کہانی
نہ دریا سی روانی
نہ بل کھاتی کمریا
نہ رہی وہ بالی عمریا
نہ وہ چال رہی مستانی
جو کرتی دلوں پہ حکمرانی
نہ وہ قد سرو کا بوٹا
چین جس لکھہوں کا لوٹا
مانو کے میں تھی رانی
نہ رہی الہڑ جوانی
نہ باتوں میں وہ شیطانی
نہ رہی راتیس سہانی
وہ چاند چمکتا چہرا
اکھیوں پہ پلکوں کا پہرا
کمان سے وہ ابرو
دیتے تھے جان گھبرو
پر اب آئنہ مسکرا رہا ہے
آئنہ آئنہ دکھلا رہا ہے
کیں تو تلملا رہا ہے عروج کو زوال آ رہا ہے
اصول ے قدرت سمجھا رہا ہے
آئنہ منہ چڑھا رہا ہے
دھردھیرے مسکرا رہا ہے
شباب رحصت ہوا جا رہا ہے