شرح بے دردئ حالات نہ ہونے پائی
اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی
پھر وہی وعدہ جو اقرار نہ بننے پایا
پھر وہی بات جو اثبات نہ ہونے پائی
پھر وہ پروانے جنہیں اذن شہادت نہ ملا
پھر وہ شمعیں کہ جنہیں رات نہ ہونے پائی
پھر وہی جاں بلبی لذت مے سے پہلے
پھر وہ محفل جو خرابات نہ ہونے پائی
پھر دم دید رہے چشم و نظر دید طلب
پھر شب وصل ملاقات نہ ہونے پائی
پھر وہاں باب اثر جانئے کب بند ہوا
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی
فیضؔ سر پر جو ہر اک روز قیامت گزری
ایک بھی روز مکافات نہ ہونے پائی