شعلۂ گل گلاب شعلہ کیا
آگ اور پھول کا یہ رشتہ کیا
تم مری زندگی ہو یہ سچ ہے
زندگی کا مگر بھروسا کیا
کتنی صدیوں کی قسمتوں کا میں
کوئی سمجھے بساط لمحہ کیا
جو نہ آداب دشمنی جانے
دوستی کا اسے سلیقہ کیا
کام کی پوچھتے ہو گر صاحب
عاشقی کے علاوہ پیشہ کیا
بات مطلب کی سب سمجھتے ہیں
صاحب نشہ غرق بادہ کیا
دل دکھوں کو سبھی ستاتے ہیں
شعر کیا گیت کیا فسانہ کیا
سب ہیں کردار اک کہانی کے
ورنہ شیطان کیا فرشتہ کیا
دن حقیقت کا ایک جلوہ ہے
رات بھی ہے اسی کا پردہ کیا
تو نے مجھ سے کوئی سوال کیا
کاروان حیات رفتہ کیا
جان کر ہم بشیرؔ بدر ہوئے
اس میں تقدیر کا نوشتہ کیا