شمع ہوں لیکن بہ پا در رفتہ خارِ جستجو مدعا گم کردہ‘ ہر سو ہر طرف جلتا ہوں میں ہے تماشا گاہِ سوزِ ناز ہر یک عضوِ تن جوں چراغانِ دوالی صف بہ صف جلتا ہوں میں شمع ہوں‘ تو بزم میں جا پاؤں غالب کی طرح بے محل‘ اے مجلس آرائے نجف! جلتا ہوں میں