شوخ رمیدہ ہوں لیے کشکول محبت اپنا
دل گلی میں دیکھی تیری تمکنت زیبائش
شتاب دید میں بصد کھو دئیے سکے سارے
نہ حاصل کنج و کفس تھی تیری نمائش
لب جُو ہی تھا کہ مستعار کر لوں
خود نگار رعوساء نے کر دی فرمائش
ہنگام رخصتی پے کر لیا خود شہر بدر
مغموم تھا پردیس میں کر لی رہائش
دوران حال سوچا کمال شوق وصلت ہو
نڈھال ہو گیا سراپا تھی مشکل آزمائش
رخت سفر میں علاقہ غیر آ پہنچا جب
پوچھا تو بتلایا گیا ہے کوئے عدس داعش