راہ اقبال پر چلنے کی تمنا کر کے
دل بھی رنجیدہ ہےالٰلّه سے شکوہ کر کے
اصفیا سمجھیں گے ہر بات کہ صوفی میں ہوں
کیا زمانے کو ملے گا مجھے رسوا کر کے
انجم لکھنویؔ
شِکَوہٗ
تیری رحمت کو نہ کیوں دیدہ پر نم ڈھونڈھے
ہے جسے تیری ضرورت وہی پیہم ڈھونڈھے
پھول کو گلشن ہستی میں بھی شبنم ڈھونڈ ھے
! خلد آدم کو کبھی خلد کو آدم ڈھونڈ ھے
شکوۂ عبد بھی سن کر تیرا پردہ نہ اُٹھا
تیری مرضی تو مجھے جلوہ دکھا یا نہ دکھا
طالب مدح تھا اب طالب شکوہ میں ہوں
جو ہے دریا کا طلبگار وہ قطرہ میں ہوں
تو ہے معبود مرا اور ترا بندہ میں ہوں
مالک حسن ہے تو عشق کا جلوہ میں ہوں
اپنے عاشق کو محبت کی سزا کس نے دی
بر سر دار انا الحق کی صدا کس نے دی
مشت بھر خاک سے اور ہستی آدم کا وجود
میں نے مانا یہ تری کارا گری ہے معبود
اور فرشتے پس آدم بھی ہوئے سر بہ سجود
ہیں اُسی نسل سے کیونکر یہ مسلمانو ہنود
کچھ نصیری ہیں نصارا بھی ہیں عیسائی بھی
جز مرے کرتے ہیں کیا تیری پذیرائی بھی
تیرے کلمے کا بھی اعلان کیا ہے ہم نے
کتنی قوموں کو مسلمان کیا ہے ہم نے
قریہ قریہ تجھے ذیشان کیا ہے ہم نے
مرحلہ سخت تھا آسان کیا ہے ہم نے
ہم اگر حق پر ہیں تو عرش سے آواز تو دے
یا بلالے ہمیں اور قوت پرواز تو دے
نام مسجد ہے ترا گھر جو بنا رکھا ہے
فرش عصمت کو بھی سجدوں سے سجا رکھا ہے
یاد میں نے بھی تجھے وقت دعا رکھا ہے
پر دُعاؤں میں اثر تو نے بھی کیا رکھا ہے
جینے والے کو دعا دیتا ہوں مر جاتا ہے
میرے ایمان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے
میں ترے نام کی تسبیح پڑھا کرتا ہوں
سجده شکر بصد شوق ادا کرتا ہوں
میں بہر حال تجھے راضی رضا کرتا ہوں
بخش دے میری خطائیں یہ دُعا کرتا ہوں
تو اگر ہے تو عمل کی مرے تائید بھی کر
جاری میرے لئے تو چشمہ تو حید بھی کر
لامکاں تو ہے حرم اصل تیرا گھر بھی نہیں
وہ کلیسا بھی نہیں مسجد و مندر بھی نہیں
تیرے رہنے کی جگہ یہ دل مضطر بھی نہیں
نور جب تو ہے ترا پھر کوئی ہمسر بھی نہیں
چاند سمجھوں تجھے سورج یا ستارہ سمجھوں
کوئی پہچان بتا کچھ تو اشارہ سمجھوں!
حق تجھے مان لیا خود ر ہے عابد بن کر
بندگی کی ہے تری واقعی زاہد بن کر
دعوتیں بانٹیں ترے دین کا قاصد بن کر
جو مخالف ہوا لڑ بیٹھے مجاہد بن کر
ہر جگہ پرچم توحید کو گاڑا کس نے
باب خیبر کو دو انگلی سے اُکھاڑا کس نے
نام زندہ ر ہے تیرا کہ اُٹھائی افتاد
جب سنائی تو سنائی تجھے اپنی روداد
تیغ باطل سے نہتھا لڑا بن کر فولاد
مڑ کے دیکھا نہ کبھی گھر کی طرف وقت جہاد
فوج اعدا نہ رہی جنگ کے منظر بدلے
میری ٹھوکر سے ہی پتھر کے مقدر بد لے
میں نے کردار زمانے کا پلٹتے دیکھا
تیرا پھیلا ہوا اسلام سمٹتے دیکھا
تو نے کب جنگ میں پیچھے مجھے ہٹتے دیکھا
کٹ گیا میرا گلا تو نے بھی کٹتے دیکھا
آسماں میری دعاؤں سے کہیں دُور نہ تھا
رن میں مجبور تھا میں تو کوئی مجبور نہ تھا
تیرا ادنی سا کرشمہ ہیں سبھی شجر و حجر
تو نے پیدا کئے دریاؤں میں بھی لعل و گہر
اتنی فرصت بھی نہ دی دیکھتا سارے منظر
مجھکو دوڑاتا رہا ہاتھ میں پرچم دیگر
تیرے اسلام کی تبلیغ مرے دم سے ہوئی
تیری دنیا کی شروعات بھی آدم سے ہوئی
لات و عزہ و ہبل کا تو بڑا لشکر تھا
غاصبانہ جہاں قبضہ تھا وہ تیرا گھر تھا
جب خدائی تھی تری تب بھی خدا پتھر تھا
گویا تخلیق بتا ں کیلئے اک آزر تھا
ہم نے طوفان نحوست کی روش موڑی ہے
یعنی پتھر کے خداؤں کی کمر توڑی ہے
تیرا محبوب نہ ہوتا تو ترا کیا ہوتا
بندگی کا تری ہر موڑ پہ سودا ہوتا
تجھکو سجدہ نہیں پھر غیر کا سجدہ ہوتا
کیسا لگتا تجھے میں کہتا جو اچھا ہوتا
سن کے یہ بات میری تجھکو جلال آجاتا
تجھکو محبوب کا اُس وقت خیال آجاتا
فاقہ کرتے ہیں مسلمان شکم سیر ہنود
شکر کرتے ہیں ادا، پھر بھی ترا سر بہ سجود
کیوں نہیں دیکھتا جب ہر جگہ تو ہے موجود
تجھکو پرواہ نہیں ہے میری شاید معبود
تو ہے رزاق تو ہی سبکو غذا دیتا ہے
پھر مجھے کس لئے تو بھوکا سلا دیتا ہے
ذہن قاصر ہے کہ میں کیسے گنہگار ہوا
تیری رحمت کا بحر کیف طلبگار ہوا
پھر بھی تیرا نہ کسی موڑ پہ دیدار ہوا
میں تولد ہوا دنیا میں یہ بیکار ہوا
تو ہے معبود تو بندے سے جدائی کیسی
جو میرے کام نہ آئے وہ خدائی کیسی
کیا ستم ہے ترا پہلے مجھے جنت دیدی
میں نے مانگی نہ تھی خود اپنی خلافت دیدی
اپنی من مانی جو چاہی وہ وصیت دیدی
اور پھر خلد بدر ہو یہ اجازت دیدی
مجھکو دنیا میں بھٹکنے کیلئے چھوڑ دیا
تو نے اک مٹی کے انسان کا دل توڑ دیا
جب مٹانا ہی تھا کیوں مجھکو بنایا تو نے
کیوں فرشتوں سے مرا سجدہ کرایا تو نے
کیوں بلندی پہ بیٹھا کر یوں گرایا تو نے
کیسا احسان ترا جو کہ جتایا تو نے
اے خدا تو ہی بتا کیا یہ تری مرضی ہے
یہ جو مرضی ہے تری اس میں بھی خود غرضی ہے
تیری دھرتی ہے مگر صورت دہقاں ہم ہیں
ایک اک دانہ گندم کے نگہباں ہم ہیں
زینت غنچۂ گل بھی ہیں گلستاں ہم ہیں
تیری دنیا کی سجاوٹ کے بھی ساماں ہم ہیں
امتحاں پھر بھی ہمیں سے ترا منشا کیا ہے
تیری رحمت نے گہنگار کو سمجھا کیا ہے
ہم سے پہلے تیرے عالم کے عجب عالم تھے
مشت بھر خاک نہ تھی اور نہ کوئی آدم تھے
جب ہوئی کا را گری تیری وہاں پر ہم تھے
کیا عبادت کے لئے تیری ملائک کم تھے
ہم کو بے وجہ بنایا کوئی احسان نہیں
ہم سے پہلے تو تری کوئی بھی پہچان نہیں
میرے اعمال بھلے اور بُرے تونے کئے
کام زیبا جو ہیں تجھکو وہ ترے تو نے کئے
زخم ماضی کے تھے دل میں جو ہرے تو نے کئے
در احساس مرے کھوٹے کھرے تو نے کئے
تیری مرضی میں جو آئے وہی تو کرتا ہے
پھول سے رنگ جدا اور کبھی بو کرتا ہے
پتے صحرا پہ اگر ایڑیاں رگڑی ہم نے
پیاس پیاسوں کی بجھائی ہے اُسی زم زم نے
بالیقیں حسنِ عمل دیکھ لیا عالم نے
لاج آدم کی بچا رکھی ہے اک آدم نے
تو اگر چاہتا کوثر بھی پلا سکتا تھا
تشنہ لب کو لب کوثر بھی بلا سکتا تھا
مسجد اقصیٰ پر قابض ہیں عدوئے اسلام
جنگ ہم کرتے ہیں تو کرتا ہے ہم کو ناکام
یعنی مقصد ہے ترا ہم رہیں ہو کے بدنام
اب نہیں چلتا کہیں نعرہ تکبیر سے کام
یہ بتا کب تری رحمت بھلا ساتھ آے گی
مسجد اقصیٰ فلسطین کے ہاتھ آے گی
یہ صداقت ہے ترے نام پہ ایماں رکّھا
طاق دل پر ترے اخلاص کا قرآں رکّھا
تجھ کو ممدوح کہا دل کو ثنا خواں رکّھا
بزم عصمت میں ترا ذکر چراغاں رکّھا
اس مشقت کے عوض تو نے مجھے خوار کیا
یہ خطا مجھ سے ہوئی میں نے تجھے پیار کیا
جرم کیا ہے میرا محشر جو بپا ہونا ہے
اتنا معلوم ہے بندے کو سزا ہونا ہے
تجھ سے سمجھوتا بھی کیا تجھ سے جدا ہونا ہے
تو خفا ہو جا اگر تجھکو خفا ہونا ہے
جن و انساں ملے دوزخ میں جلانے کیلئے
باقی ہر شئے ہے کیا جنت میں سجانے کیلئے