خوبصورت ذہن کو خوبصورت سوچ کو مرنا نہیں چاہیے
جس دئیے سے روشنی ہو گھر میں اسے بجھنا نہیں چاہیے
قاتل کی آستینوں پر نشان ہیں خون کے
اب کے برسات میں انہیں دھلنا نہیں چاہیے
انسان تو بہت ہیں مگر ذہن کی تعمیر صدیوں میں ہوتی ہے
ایسی تہذیب کو کبھی اجڑنا نہیں چاہیے
جس خواب کی تعبیر ہو اچھی اسے ٹوٹنا نہیں چاہیے
تادم سحر اب نیند سے اٹھنا نہیں چاہیے
یہ کہہ کر لوٹ گئی بہار اپنے دروازے سے
اسے یاد کر کے موسم گل میں تمہیں رونا نہیں چاہیے
جلا رکھے ہیں تیری یاد میں فصیل شہر پر چراغ
احترام محبت میں ہواؤں کو یہاں سے گزرنا نہیں چاہیے
کروڑوں انسانوں کی آنکھوں میں امید کی کرن تھی وہ
اب اندھیروں کو آنکھوں تک بڑھنا نہیں چاہیے