شیشہ ہر آئینہ نہیں ہوتا
آپ سا دوسرا نہیں ہوتا
رات ڈھلتے ہی آئ صبح ملال
کوئ سپنا نیا نہیں ہوتا
دوستوں کی منافقت دیکھیں
کوئ مجھ سے خفا نہیں ہوتا
درد پوچھو نہیں کہ کتنا ہے
زخم ہر اک سلا نہیں ہوتا
درد سرعت سے پھیل جاتاہے
ہاتھ سے دل جدا نہیں ہوتا
سیکھ دیتی ہے زندگی ہمکو
فیصلہ ہر سزا نہیں ہوتا
کیوں بھٹکتے ہو رات کو اکثر
گھر کا کیا در کھلا نہیں ہوتا
بچے تو بے سبب بھی ہنستے ہیں
اس میں مطلب چھپا نہیں ہوتا
ملتے ہو اور ملال بھی ہے تمہیں
کاش ان سے ملا نہیں ہوتا
شکوہ اپنوں سے کیا جاتا ہے
غیر سے کچھ گلہ نہیں ہوتا
دو گھڑی کی نہیں جنھیں فرصت
کل ہو کیا کچھ پتہ نہیں ہوتا
میں نبھاتی ہوں ہر کسی سے پر
خود سے وعدہ وفا نہیں ہوتا
حیاء غزل