صبح کا جھرنا ہمیشہ ہنسنے والی عورتیں
Poet: بشیر بدر By: Junaid, jaccobabadصبح کا جھرنا ہمیشہ ہنسنے والی عورتیں
جھٹپٹے کی ندیاں خاموش گہری عورتیں
معتدل کر دیتی ہیں یہ سرد موسم کا مزاج
برف کے ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ جیسی عورتیں
سبز نارنجی سنہری کھٹی میٹھی لڑکیاں
بھاری جسموں والی ٹپکے آم جیسی عورتیں
سڑکوں بازاروں مکانوں دفتروں میں رات دن
لال نیلی سبز نیلی جلتی بجھتی عورتیں
شہر میں اک باغ ہے اور باغ میں تالاب ہے
تیرتی ہیں اس میں ساتوں رنگ والی عورتیں
سیکڑوں ایسی دکانیں ہیں جہاں مل جائیں گی
دھات کی پتھر کی شیشے کی ربڑ کی عورتیں
منجمد ہیں برف میں کچھ آگ کے پیکر ابھی
مقبروں کی چادریں ہیں پھول جیسی عورتیں
ان کے اندر پک رہا ہے وقت کا آتش فشاں
جن پہاڑوں کو ڈھکے ہیں برف جیسی عورتیں
آنسوؤں کی طرح تارے گر رہے ہیں عرش سے
رو رہی ہیں آسمانوں کی اکیلی عورتیں
غور سے سورج نکلتے وقت دیکھو آسماں
چومتی ہیں کس کا ماتھا اجلی لمبی عورتیں
سبز سونے کے پہاڑوں پر قطار اندر قطار
سر سے سر جوڑے کھڑی ہیں لمبی سیدھی عورتیں
واقعی دونوں بہت مظلوم ہیں نقاد اور
ماں کہے جانے کی حسرت میں سلگتی عورتیں
سہمے سہمے ہاتھوں نے اک کتاب پھر کھولی
دائرے اندھیروں کے روشنی کے پوروں نے
کوٹ کے بٹن کھولے ٹائی کی گرہ کھولی
شیشے کی سلائی میں کالے بھوت کا چڑھنا
بام کاٹھ کا گھوڑا نیم کانچ کی گولی
برف میں دبا مکھن موت ریل اور رکشا
زندگی خوشی رکشا ریل موٹریں ڈولی
اک کتاب چاند اور پیڑ سب کے کالے کالر پر
ذہن ٹیپ کی گردش منہ میں طوطوں کی بولی
وہ نہیں ملی ہم کو ہک بٹن سرکتی جین
زپ کے دانت کھلتے ہی آنکھ سے گری چولی
ہرن کی پیٹھ پر بیٹھے پرندے کی شرارت سی
وہ جیسے سردیوں میں گرم کپڑے دے فقیروں کو
لبوں پہ مسکراہٹ تھی مگر کیسی حقارت سی
اداسی پت جھڑوں کی شام اوڑھے راستہ تکتی
پہاڑی پر ہزاروں سال کی کوئی عمارت سی
سجائے بازوؤں پر باز، وہ میداں میں تنہا تھا
چمکتی تھی یہ بستی دھوپ میں تاراج و غارت سی
مری آنکھوں مرے ہونٹوں پہ یہ کیسی تمازت ہے
کبوتر کے پروں کی ریشمی اجلی حرارت سی
کھلا دے پھول میرے باغ میں پیغمبروں جیسا
رقم ہو جس کی پیشانی پہ اک آیت بشارت سی
مرے بدن پہ کسی دوسرے کی شال نہیں
اداس ہو گئی ایک فاختہ چہکتی ہوئی
کسی نے قتل کیا ہے یہ انتقال نہیں
تمام عمر غریبی میں با وقار رہے
ہمارے عہد میں ایسی کوئی مثال نہیں
وہ لا شریک ہے اس کا کوئی شریک کہاں
وہ بے مثال ہے اس کی کوئی مثال نہیں
میں آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہوں
کہاں ملی تھی یہ دنیا مجھے خیال نہیں
وہ شخص جس کو دل و جاں سے بڑھ کے چاہا تھا
بچھڑ گیا تو بظاہر کوئی ملال نہیں
اور پانی سرائے فانی میں
جھلملاتے ہیں کشتیوں میں دیے
پل کھڑے سو رہے ہیں پانی میں
خاک ہو جائے گی زمین اک دن
آسمانوں کی آسمانی میں
وہ ہوا ہے اسے کہاں ڈھونڈوں
آگ میں خاک میں کہ پانی میں
آ پہاڑوں کی طرح سامنے آ
ان دنوں میں بھی ہوں روانی میں
جھٹپٹے کی ندیاں خاموش گہری عورتیں
معتدل کر دیتی ہیں یہ سرد موسم کا مزاج
برف کے ٹیلوں پہ چڑھتی دھوپ جیسی عورتیں
سبز نارنجی سنہری کھٹی میٹھی لڑکیاں
بھاری جسموں والی ٹپکے آم جیسی عورتیں
سڑکوں بازاروں مکانوں دفتروں میں رات دن
لال نیلی سبز نیلی جلتی بجھتی عورتیں
شہر میں اک باغ ہے اور باغ میں تالاب ہے
تیرتی ہیں اس میں ساتوں رنگ والی عورتیں
سیکڑوں ایسی دکانیں ہیں جہاں مل جائیں گی
دھات کی پتھر کی شیشے کی ربڑ کی عورتیں
منجمد ہیں برف میں کچھ آگ کے پیکر ابھی
مقبروں کی چادریں ہیں پھول جیسی عورتیں
ان کے اندر پک رہا ہے وقت کا آتش فشاں
جن پہاڑوں کو ڈھکے ہیں برف جیسی عورتیں
آنسوؤں کی طرح تارے گر رہے ہیں عرش سے
رو رہی ہیں آسمانوں کی اکیلی عورتیں
غور سے سورج نکلتے وقت دیکھو آسماں
چومتی ہیں کس کا ماتھا اجلی لمبی عورتیں
سبز سونے کے پہاڑوں پر قطار اندر قطار
سر سے سر جوڑے کھڑی ہیں لمبی سیدھی عورتیں
واقعی دونوں بہت مظلوم ہیں نقاد اور
ماں کہے جانے کی حسرت میں سلگتی عورتیں
مرے خدا تو مرے نام اک غزل لکھ دے
میں چاہتا ہوں یہ دنیا وہ چاہتا ہے مجھے
یہ مسئلہ بڑا نازک ہے کوئی حل لکھ دے
یہ آج جس کا ہے اس نام کو مبارک ہو
مری جبیں پہ مرے آنسوؤں سے کل لکھ دے
ہوا کی طرح میں بیتاب ہوں کہ شاخ گلاب
جو ریگزاروں پہ تالاب کے کنول لکھ دے
میں ایک لمحے میں دنیا سمیٹ سکتا ہوں
تو کب ملے گا اکیلے میں ایک پل لکھ دے






