صدمۂ ہجر تو سہا میں نے
تیرا شکوہ نہیں کیا میں نے
لوگ کہتے رہے تجھے پتھر
تجھ کو سمجھا کیا خدا میں نے
لفظ ڈھلنے لگے تھے چیخوں میں
اپنے ہونٹوں کو سی لیا میں نے
کرچیاں بھر گئی ہیں آنکھوں میں
خواب دیکھا کہ آئینہ میں نے
پیار کا اس کو دے دیا ساگر
ایکھ قطرہ نہ خود پیا میں نے
وہ بھی نکلا ہے سایۂ دیوار
جس کو سمجھا تھا آسرا میں نے
وہ کسی اور کے مدار میں تھا
اور محور اسے چنا میں نے
کس قدر بھول ہوگئی ہے صدف
خار کو پھول لکھ دیا میں نے