ضبط کتنا ہی آزمایا ہو گا
اک اشک جو آنکھ میں آیا ہو گا
یہ کیا کہ رونے پہ بھی پابندی
گویا ضبط کو سولی پہ چڑھایا ہو گا
تلخئ دوراں کی نظر کٹی عمر ء انساں
مر کے خوب جشن تو منایا ہو گا
وہ جو مسکراتا ہے بات بے بات بھی اتنا
خود کو کئ بار بہلایا ہو گا
سنا ہے آج کل اداس ہے وہ بھی
کسی نے حال میرا شاید سنایا ہو گا
اسے عادت تھی میرا نام لکھنے کی
کتنی بار اس نے مجھے مٹایا ہو گا
لکھا ہو گا اس نے تعارف میں مجھے
اک دیوانہ کوئی مجنوں بتایا ہو گا
وہ جو سر ء شام بھی میرے ساتھ ہے رہتا
مجھ سا دیوانہ میرا سایہ ہو گا
اسے معلوم ہی نہیں حقیقت میری عنبر
میری مسکان سے وہ دھوکا کھایا ہو گا