ضبط کر کے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
ذات در ذات ہم سفر رہ کر
اجنبی اجنبی کو بھول گیا
صبح تک وجہ جاں کنی تھی جو بات
میں اسے شام ہی کو بھول گیا
عہد وابستگی گزار کے میں
وجہ وابستگی کو بھول گیا
سب دلیلیں تو مجھ کو یاد رہیں
بحث کیا تھی اسی کو بھول گیا
کیوں نہ ہو ناز اس ذہانت پر
ایک میں ہر کسی کو بھول گیا
سب سے پر امن واقعہ یہ ہے
آدمی آدمی کو بھول گیا
قہقہہ مارتے ہی دیوانہ
ہر غم زندگی کو بھول گیا
خواب ہا خواب جس کو چاہا تھا
رنگ ہا رنگ اسی کو بھول گیا
کیا قیامت ہوئی اگر اک شخص
اپنی خوش قسمتی کو بھول گیا
سوچ کر اس کی خلوت انجمنی
واں میں اپنی کمی کو بھول گیا
سب برے مجھ کو یاد رہتے ہیں
جو بھلا تھا اسی کو بھول گیا
ان سے وعدہ تو کر لیا لیکن
اپنی کم فرصتی کو بھول گیا
بستیو اب تو راستہ دے دو
اب تو میں اس گلی کو بھول گیا
اس نے گویا مجھی کو یاد رکھا
میں بھی گویا اسی کو بھول گیا
یعنی تم وہ ہو واقعی؟ حد ہے
میں تو سچ مچ سبھی کو بھول گیا
آخری بت خدا نہ کیوں ٹھہرے
بت شکن بت گری کو بھول گیا
اب تو ہر بات یاد رہتی ہے
غالباً میں کسی کو بھول گیا
اس کی خوشیوں سے جلنے والا جونؔ
اپنی ایذا دہی کو بھول گیا