ضرور اس کی نظر مجھ پہ ہی گڑی ہوئی ہے
میں جم سے آ رہا ہوں آستیں چڑھی ہوئی ہے
مجھے ذرا سا برا کہہ دیا تو اس سے کیا
وہ اتنی بات پہ ماں باپ سے لڑی ہوئی ہے
اسے ضرورت پردہ ذرا زیادہ ہے
یہ وہ بھی جانتی ہے جب سے وہ بڑی ہوئی ہے
وہ میری دی ہوئی نتھنی پہن کے گھومتی ہے
تبھی وہ ان دنوں کچھ اور نک چڑھی ہوئی ہے
معاہدوں میں لچک بھی ضروری ہوتی ہے
پر اس کی سوئی وہیں کی وہیں اڑی ہوئی ہے
وہ ٹائی باندھتی ہے اور کھینچ لیتی ہے
یہ کیسے وقت اسے پیار کی پڑی ہوئی ہے
خدا کے واسطے لکھتے رہو کہ اس نے امیرؔ
ہر اک غزل تری سو سو دفعہ پڑھی ہوئی ہے