طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
گئے فرہاد و مجنوں اب کسی سے دل نہیں ملتا
بھری ہے انجمن لیکن کسی سے دل نہیں ملتا
ہمیں میں آ گیا کچھ نقص یا کامل نہیں ملتا
پرانی روشنی میں اور نئی میں فرق اتنا ہے
اسے کشتی نہیں ملتی اسے ساحل نہیں ملتا
پہنچنا داد کو مظلوم کا مشکل ہی ہوتا ہے
کبھی قاضی نہیں ملتے کبھی قاتل نہیں ملتا
حریفوں پر خزانے ہیں کھلے یاں ہجر گیسو ہے
وہاں پہ بل ہے اور یاں سانپ کا بھی بل نہیں ملتا
یہ حسن و عشق ہی کا کام ہے شبہ کریں کس پر
مزاج ان کا نہیں ملتا ہمارا دل نہیں ملتا
چھپا ہے سینہ و رخ دل ستاں ہاتھوں سے کروٹ میں
مجھے سوتے میں بھی وہ حسن سے غافل نہیں ملتا
حواس و ہوش گم ہیں بحر عرفان الٰہی میں
یہی دریا ہے جس میں موج کو ساحل نہیں ملتا
کتاب دل مجھے کافی ہے اکبرؔ ؔدرس حکمت کو
میں اسپنسر سے مستغنی ہوں مجھ سے مل نہیں ملتا