طلب ہیں عشقِ بتاں میں جو آبرو کرتے
ظفر ہیں آگ سے پانی کی آرزو کرتے
اشارا اپنے جو ابرو کا وہ کبھو کرتے
ملک فلک سے پئے سجدہ سر فرو کرتے
نمازِ عشق میں جب ہم ہیں سر فرو کرتے
تو آبِ اشک سے سو بار ہیں وضو کرتے
نہ رُوئے یار سے ہوتی جو نسبتِ کعبہ
تمام عمر بھی عاشق ادھر نہ رُو کرتے
وہ سنتے حضرتِ ناصح کہ پھر نہ بات آتی
جو ترکِ عشق میں کچھ اور گفتگو کرتے
عجب نہیں ہے اگر رفتہ رفتہ گم ہوتے
جو کوئے یار میں ہم دل کی جستجو کرتے