نُطق فدا ، قلم فدا ، ذہن فدا ، زباں فدا
طیبہ پہ شاعری فدا ، سارے سخن وَراں فدا
آپ گئے ہیں عرش پر ، آپ پہ شش جہاں فدا
آپ کا دیکھ کے قرب ِرب، ہوتی ہیں دُوریاں فدا
نور کی بھیک لیتے ہیں ، انجم و مہر و ماہ سب
حُسن پہ آقا آپ کے ، کیوں نہ ہو آسماں فدا
رنگ کا رنگ اُن سے ہے ، اُن سے ہی نکہتِ شمیم
گل نہیں غنچہ ہی نہیں اُن پر ہے گلستاں فدا
کلمۂ طیّبہ پڑھا ، بوجہل نے بھی سُن لیا
آقا کے نطق پر نہ کیوں ہوں سنگِ بے زباں فدا
انگشت سے ہوا رواں ، چشمۂ آب بے گماں
آقا کی انگلیوں پہ ہیں ، دنیا کی ندّیاں فدا
میری مراد ہے وہی ، میرا سکونِ دل وہیں
جاوں گا طیبہ ہی کو میں ، طیبہ پہ ہے جناں فدا
لاے مُشاہدؔ اور کیا ، آپ کی نذر کرنے کو
اِس کا کلام ہو فدا اِس کی خموشیاں فدا