نامہ میرا جو لے کے کوئی نامہ بر گیا
نامے کو دیکھتے ہی وہ ظلم بپھر گیا
وعدہ کیا تھا پارک میں ملنے کا شام کو
وعدہ دلایا یاد تو فوراً مکر گیا
دعوت تو تھی رقیب کی میرا نہیں تھا کام
جانا نا چاہیے تھا میں بھی مگر گیا
اس حال میں وہ دیکھ کر شاید ہو مہربان
دامن کو کر کے چاک گیا چشم تر گیا
دل پھینک میں ضرور ہوں عاشق نہ جانئے
اسکی گلی میں بھونکتے کتے سے ڈر گیا
اسکو بہت پسند ہے گوبھی کا پھول بھی
میں بھی سجا کے کوٹ کے کالر میں گھر گیا
وہ چاند جسکو دیکھ کے شب کا گمان ہو
کس کا نصیب پھوٹا ہے کس کے نگر گیا
پردیس میں ہو جاکے بسا اسکا غم ہیں
اس بات کا ملال ہے غیروں کے گھر گیا
آدھی پہ شکر کرتا بگڑتا نہ میرا گھر
روزی کی وہ تلاش میں کیوں در بدر گیا
شادی کے بعد عاشقی بکھری ہے اس قدر
چھوٹا سا اک فلیٹ تھا بچوں سے بھر گیا
محرم کوئی ملا نہ کوئی آشنا ملا
کوچے میں جب رقیب کے میں سر بسر گیا