کس کرب سے دوچار ہوں سنتا نہیں کوئی
کانٹے بھی میری راہ کے چنتا نہیں کوئی
اے اہلِ وطن آپ کی غیرت ہے کہاں پر
سوچا بھی نہیں آپ کی عزت ہے کہاں پر
اغیار نے کیا کیا نہ ستم مجھ پہ کیے ہیں
آندھی کے حوالے میری حسرت کے دئیے ہیں
اب آہ میں بھی میری نہیں کوئی اثر ہے
یہ قوم کی بیٹی ہے جو اب خاک بسر ہے
کب تک بھلا اغیار کی ٹھوکر میں رہوں میں
لپٹی ہوئی کیوں خاک کے بستر میں رہوں میں
اے اہلِ حکومت یہ مرا قرض ہے تم پر
انصاف مہیا کرو یہ فرض ہے تم پر