عجب آگ دل میں لگاتا ہے بچپن
مرا تن بدن ہی جلاتا ہے بچپن
کھلونوں کی یادیں انہیں کیا ستائیں
جنہیں بس کمانا سکھاتا ہے بچپن
نہ پوشاک تن پہ نہ پاؤں میں جوتی
بھلا کب وہ عیدیں بھلاتا ہے بچپن
ہر اِک زندگانی کی تشنہ لبی کو
فقط آنسوؤں سے بجھاتا ہے بچپن
پزاوے کے سوندھے گِلاوے میں ہر دم
چپاتی کے سپنے دکھاتا ہے بچپن
وہ ایندھن جلانا وہ اینٹیں پکانا
ہنر کیسے کیسے سکھاتا ہے بچپن
بدن پہ برس جاتا ہے تازیانہ
اگر چین کے پل چراتا ہے بچپن
کڑی دھوپ میں سنگ سر پہ اٹھا کر
گزر گاہیں دن بھر بناتا ہے بچپن
غریبوں کے جیون کا دستور ہے یہ
کہ سیدھا بڑھاپے میں لاتا ہے بچپن
یہ سب چونچلے ہیں امیروں کے دیپک
بھلا کب غریبوں پہ آتا ہے بچپن