عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی
Poet: تہذیب حافی By: Erma, Peshawar
عجیب خواب تھا اس کے بدن میں کائی تھی 
 وہ اک پری جو مجھے سبز کرنے آئی تھی 
 
 وہ اک چراغ کدہ جس میں کچھ نہیں تھا مرا 
 جو جل رہی تھی وہ قندیل بھی پرائی تھی 
 
 نہ جانے کتنے پرندوں نے اس میں شرکت کی 
 کل ایک پیڑ کی تقریب رو نمائی تھی 
 
 ہواؤ آؤ مرے گاؤں کی طرف دیکھو 
 جہاں یہ ریت ہے پہلے یہاں ترائی تھی 
 
 کسی سپاہ نے خیمے لگا دیے ہیں وہاں 
 جہاں پہ میں نے نشانی تری دبائی تھی 
 
 گلے ملا تھا کبھی دکھ بھرے دسمبر سے 
 مرے وجود کے اندر بھی دھند چھائی تھی
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 