عجیب ہے وہ
جو اپنی نیندیں دان کر کےرتجگوں کے حساب مانگے
جو اپنی آنکھیں کرید کر اپنے مستقبل کے خواب مانگے
لہجے میں رکھے نرم گوشی، دل میں رکھے اَنا کو طوفاں
ذہین ایسا کہ اپنے ماضی کو چند سطروں میں درج کر دے
جو غمزدہ ہو تو اپنی آنکھوں سے خون روئے
جو لب ہلائے تو روشن کردے منفرد فلسفوں کو
کسی کی یادوں میں جب وہ کھوئے، گماں کردے قضا ہے نزدیک
کسی سے جب وہ ہنس کر بولے تو روح کھینچے
جو نظر اُٹھا کر وہ مسکرائے تو خاموش کردے
عجیب ہے وہ
تاریک راتوں میں چاند و تاروں کو تکتا جائے
عجب تکلم سے دھیمے دھیمے کچھ کہتا جائے
پھر پاس آکر مجھے پوچھے
تمھیں خبر ہے درد کی ہیں کتنی قسمیں؟
کبھی سہا ہے حسرتوں کہ بے موت مرنے کا دُکھ تم نے؟
ضبط کی ہیں کبھی وہ چیکھیں، خواہشیں جب کچلی جائیں؟
پھر بے خیالی میں مسکرائے
عجیب ہے وہ
کچی نیندوں سے جاگ کر وہ، دیوار پر اِک دل تراشے
اس پر لکھے مر گیا ہے پھر مٹائے
میری بانہوں میں سر رکھ کر مجھے بتائے
جو تم نہ ہوتی تو اُداسیوں سے جنگ کرتا
کسی کی یادوں میں روز جیتا، روز مرتا
پھر ہاتھ تھامے، مجھے نہارے
اپنی انگلی سے میری ہتھیلی پر اپنا اسم نقش کر دے
میرے ماتھے کو چوم کر وہ مجھے خدا کے سپرد کردے
عجیب ہے وہ