عذابوں کے انہیں بھی خواب آنے لگ گئے ہیں
پرندے روٹھ کر پردیس جانے لگ گئے ہیں
ابھی بھی بوٹ پالش کر کے روٹی کھا رہا ہوں
اگرچہ پانچ بیٹے بھی کمانے لگ گئے ہیں
صفِ ماتم بچھا کر تتلیاں رونے لگی ہیں
تری تصویر کو جب سے جلانے لگ گئے ہیں
کئی ہفتے لڑے ہیں بھوک سے پہلے وہ بچے
جو کچرا دان سے روٹی چرانے لگ گئے ہیں
کسی گاؤں کی لڑکی کی محبت میں ہے چندہ
ستارے ہجر میں آنسو بہانے لگ گئے ہیں
ہمارا نام جو لینے لگی سکھیاں تو وہ بھی
کھڑے پردے کے پیچھے مسکرانے لگ گئے ھیں
میں بچوں کو بھلا کیسے پڑھا پاؤں گا صاحب
مجھے تو گھر بنانے میں زمانے لگ گئے ہیں
تمہاری یاد کو دل سے نکالا جا رہا ہے
خطوط و وصل کے لمحے ٹھکانے لگ گئے ہیں
یہاں مظلوم کو انصاف ملنا خواب ہے بس
یہاں منصف بھی مجرم کو بچانے لگ گئے ہیں
غم و صدمات سے گھر کو سجا کر اب مبشر
شب- فرقت کو ہم نیچا دکھانے لگ گئے ہیں