عزیز تر وہ مجھے رکھتا تھا رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے
وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پہ رکھتا تھا
یہی تھی وجہ مجھے چومتے جھجھکتا تھا
وہ آشنا مرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے جی نہیں پایا مگر سسکتا تھا
جڑی تھی اس کی ہر اک ہاں فقط مری ماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے
ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تھا
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا
وہ لوٹتا تھا کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا تھا
گلے تھے پھر بھی مجھے ایسے چاک داماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے
پرانا سوٹ پہنتا تھا کم وہ کھاتا تھا
مگر کھلونے مرے سب خرید لاتا تھا
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا تھا جی بھر کے
نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا تھا
مرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویراں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے