اے اہلِ محفل بڑی کٹھن ہے سنیں تو گذرگاہِ عشق
گذر سکیں آسانی سے ممکن نہیں شاہ راہِ عشق
اُس کو آزادی کا مژدہ مل گیا ہے دہر میں
جس کو شہِ کونین کی حاصل ہوئی پناہِ عشق
دل اس کا نور آشنا پل بھر لوگو! ہوگیا
اک بار جس پر پڑ گئی رحمت بھری نگاہِ عشق
دل کو لگائیں بس شہِ کون و مکاں کی ذات سے
عشقِ رسولِ پاک ہے بے شک شہنشاہِ عشق
عشق سے تخلیقِ کل ، عشق سے عقل و شعور
عشق سے معراج ہے ، کیسا ہے عزّو جاہِ عشق
منزلیں اُس کے قدم کو بوسہ دیتی ہیں ضرور
جو کہ چلا خلوص سے لاریب! گذرگاہِ عشق
عشق ہے تسکینِ جاں ، عشق ہے رحمت نشاں
قلبِ مُشاہدؔ پر رہے چھایا ہمیشہ ماہِ عشق