کیا یہی عشق کا دستور ہے
ہم مل کے بھی دور ہے
ہے نہیں خبر مجھے ہوتا ہوں کس حال میں
پھر ایک روز سمجھ آیا مجھے یہی تو وصل یار ہے
چلو اب اجازت دے دو آشکار کرتے ہیں لوگوں کو جانا
کیا تم نے کچھ آشکار اب یہ تم کو پاگل مانتے ہے
کیوں سمجھتے ہیں مجھ کو پاگل کیا یہی ان کا شاور
ہے
یہی عشق کا دستور ہے ہم مل کے بھی دور ہے
کیسی آزمائش آ رہی ہے مجھ پر اب عشق کا اظہار کروں تو کیسے
اب تک نہیں پہنچے تم اس دہر میں جہاں منصور بن کر کہہر برستا ہے
میں کروں تو کیا کروں میں بے قابو ہو رہا ہوں
توڑ زنجیر ر یاسر میں تیرا اور تو میرا یار ہے