عشق ہے اختیار کا دشمن
Poet: شاہ مبارک آبرو By: Danish, Karachi
عشق ہے اختیار کا دشمن
صبر و ہوش و قرار کا دشمن
دل تری زلف دیکھ کیوں نہ ڈرے
جال ہو ہے شکار کا دشمن
ساتھ اچرج ہے زلف و شانے کا
مور ہوتا ہے مار کا دشمن
دل سوزاں کوں ڈر ہے انجہواں سیں
آب ہو ہے شرار کا دشمن
کیا قیامت ہے عاشقی کے رشک
یار ہوتا ہے یار کا دشمن
آبروؔ کون جا کے سمجھاوے
کیوں ہوا دوست دار کا دشمن
More Shah Mubarak Abroo Poetry
دلی کے بیچ ہائے اکیلے مریں گے ہم دلی کے بیچ ہائے اکیلے مریں گے ہم
تم آگرے چلے ہو سجن کیا کریں گے ہم
یوں صحبتوں کوں پیار کی خالی جو کر چلے
اے مہربان کیونکہ کہوں دن پھریں گے ہم
جن جن کو لے چلے ہو سجن ساتھ ان سمیت
حافظ رہے خدا کے حوالے کریں گے ہم
بھولو گے تم اگرچہ سدا رنگ جی ہمیں
تو ناؤں بین بین کے تم کو دھریں گے ہم
اخلاص میں کتا ہے تمہیں آبروؔ ابھی
آئے نہ تم شتاب تو تم سیں لڑیں گے ہم
تم آگرے چلے ہو سجن کیا کریں گے ہم
یوں صحبتوں کوں پیار کی خالی جو کر چلے
اے مہربان کیونکہ کہوں دن پھریں گے ہم
جن جن کو لے چلے ہو سجن ساتھ ان سمیت
حافظ رہے خدا کے حوالے کریں گے ہم
بھولو گے تم اگرچہ سدا رنگ جی ہمیں
تو ناؤں بین بین کے تم کو دھریں گے ہم
اخلاص میں کتا ہے تمہیں آبروؔ ابھی
آئے نہ تم شتاب تو تم سیں لڑیں گے ہم
Erma
آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے
دل دوانہ ہو گیا ہے دیکھ یہ صبح بہار
رسمسا پھولوں بسا آیا انکھوں میں نیند ہے
شیر عاشق آج کے دن کیوں رقیباں پے نہ ہوں
یار پایا ہے بغل میں خانۂ خورشید ہے
غم کے پیچھو راست کہتے ہیں کہ شادی ہووے ہے
حضرت رمضاں گئے تشریف لے اب عید ہے
عید کے دن رووتا ہے ہجر سیں رمضان کے
بے نصیب اس شیخ کی دیکھو عجب فہمید ہے
سلک اس کی نظم کا کیوں کر نہ ہووے قیمتی
آبروؔ کا شعر جو دیکھا سو مروارید ہے
راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے
دل دوانہ ہو گیا ہے دیکھ یہ صبح بہار
رسمسا پھولوں بسا آیا انکھوں میں نیند ہے
شیر عاشق آج کے دن کیوں رقیباں پے نہ ہوں
یار پایا ہے بغل میں خانۂ خورشید ہے
غم کے پیچھو راست کہتے ہیں کہ شادی ہووے ہے
حضرت رمضاں گئے تشریف لے اب عید ہے
عید کے دن رووتا ہے ہجر سیں رمضان کے
بے نصیب اس شیخ کی دیکھو عجب فہمید ہے
سلک اس کی نظم کا کیوں کر نہ ہووے قیمتی
آبروؔ کا شعر جو دیکھا سو مروارید ہے
Zamin
عشق ہے اختیار کا دشمن عشق ہے اختیار کا دشمن
صبر و ہوش و قرار کا دشمن
دل تری زلف دیکھ کیوں نہ ڈرے
جال ہو ہے شکار کا دشمن
ساتھ اچرج ہے زلف و شانے کا
مور ہوتا ہے مار کا دشمن
دل سوزاں کوں ڈر ہے انجہواں سیں
آب ہو ہے شرار کا دشمن
کیا قیامت ہے عاشقی کے رشک
یار ہوتا ہے یار کا دشمن
آبروؔ کون جا کے سمجھاوے
کیوں ہوا دوست دار کا دشمن
صبر و ہوش و قرار کا دشمن
دل تری زلف دیکھ کیوں نہ ڈرے
جال ہو ہے شکار کا دشمن
ساتھ اچرج ہے زلف و شانے کا
مور ہوتا ہے مار کا دشمن
دل سوزاں کوں ڈر ہے انجہواں سیں
آب ہو ہے شرار کا دشمن
کیا قیامت ہے عاشقی کے رشک
یار ہوتا ہے یار کا دشمن
آبروؔ کون جا کے سمجھاوے
کیوں ہوا دوست دار کا دشمن
Danish
اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہوگا اگر انکھیوں سیں انکھیوں کو ملاؤ گے تو کیا ہوگا
نظر کر لطف کی ہم کوں جلاؤ گے تو کیا ہوگا
تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے
اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہوگا
محبت سیں کہتا ہوں طور بد نامی کا بہتر نہیں
اگر خندوں کی صحبت میں نہ جاؤ گے تو کیا ہوگا
تمہارے شوق میں ہوں جاں بلب اک عمر گزری ہے
اگر اک دم کوں آ کر مکھ دکھاؤ گے تو کیا ہوگا
مرا دل مل رہا ہے تم سوں پیارے باطنی ملنا
اگر ہم پاس ظاہر میں نہ آؤ گے تو کیا ہوگا
جگت کے لوگ سارے آبروؔ کوں پیار کرتے ہیں
اگر تم بھی گلے اس کوں لگاؤ گے تو کیا ہوگا
نظر کر لطف کی ہم کوں جلاؤ گے تو کیا ہوگا
تمہارے لب کی سرخی لعل کی مانند اصلی ہے
اگر تم پان اے پیارے نہ کھاؤ گے تو کیا ہوگا
محبت سیں کہتا ہوں طور بد نامی کا بہتر نہیں
اگر خندوں کی صحبت میں نہ جاؤ گے تو کیا ہوگا
تمہارے شوق میں ہوں جاں بلب اک عمر گزری ہے
اگر اک دم کوں آ کر مکھ دکھاؤ گے تو کیا ہوگا
مرا دل مل رہا ہے تم سوں پیارے باطنی ملنا
اگر ہم پاس ظاہر میں نہ آؤ گے تو کیا ہوگا
جگت کے لوگ سارے آبروؔ کوں پیار کرتے ہیں
اگر تم بھی گلے اس کوں لگاؤ گے تو کیا ہوگا
Anila






