دل میں گر روشن رہے ان کی الفت کا چراغ
قبر میں ہو تا ابد پھر تو راحت کا چراغ
گر گئے لات و ہبل اک پل میں سارے سر کے بل
جب جلایا مصطفا نے رب کی وحدت کا چراغ
ہر طرف لاریب تھیں خوں ریزیاں چھائی ہوئیں
آپ آئے جل اُٹھا امن و اُخوت کا چراغ
جشنِ میلاد النبی ہے عیدِ اکبر بے گماں
چار جانب ہم جلائیں گے مَسرّت کا چراغ
انبیاے سابقہ کے بجھ گئے سارے دیے
لے کر آئے مصطفا ختمِ نبوت کا چراغ
’’چاند شق ہو پیڑ بولیں جانور سجدہ کریں‘‘
جس گھڑی روشن ہوا اُن کی قدرت کا چراغ
نعتِ پاکِ مصطفا کی برکتیں تو دیکھیے
ہے فروزاں میرے گھر میں ان کی رحمت کا چراغ
مصطفا کے چار یاروں نے جلایا دہر میں
صدق کا عدل و کرم کا اور ہمت کا چراغ
غوث و خواجہ ، شاہِ برکت نوری میاں سے پیار ہو
دل میں روشن ہی رہے حُسنِ عقیدت کا چراغ
جب ہوائیں نفرتوں کی چل رہی تھیں چار سو
اعلاحضرت نے جلایا اُن کی عظمت کا چراغ
ہے خداوندِ جہاں سے یہ مُشاہدؔ کی دُعا
اُس کے دل میں ہر نفَس ہو اُن کی مدحت کا چراغ