رب کی رحمت سے فروزاں جو رسالت آئی
علم و عرفان سے لبریز امانت آئی
فخر سے آ ج بھی نازاں ہے مقدس کعبہ
اسکی بنیاد کے اٹھتے ہی بشارت آئی
جنکی آمد کی خوشی میں ہے منور دنیا
آمنہ آپ کے حصے وہ سعادت آئی
قصر کسٰری بھی لرز اٹھا بجھی آگ قدیم
انکی آمد سے ہی باطل کو ہے ہیبت آئی
طور پر جسکے طلبگار تھے موسٰی سے کلیم
میرے آقا کو وہ معراج بصارت آئی
باندھ کر ہاتھ کھڑئے ہوگئے سارے ہی نبی
شاہ کونین کی صورت جو امامت آئی
رہ گئے سدرہ پہ جبرئیل بھی حسرت سے کھڑے
نور والے میں جو نورانی لطافت آئی
جنکے سجدے پہ کرم رب نے لٹایا سب پر
دامن غار حراء سے وہ عبادت آئی
غار میں آپکی صحبت کو ملائک ترسیں
بو بکر آپ کے گھر چل کے رفاقت آئی
چیر کر رکھ دے جو مہتاب کو انگلی سے ادھر
کملی والے کی ادا ء میں وہ کرامت آئی
مانگتے رہ گئے الله سے کئی اسکے نبی
شاہ بطحٰی کی غلامی میں جو امت آئی
انکی نعلین کے صد قے میں رحم ہوتا ہے
کام کچھ بھی نہ میرے زہد و ریاضت آئی
رب ہی بخشے گا فقط انکے ہی کہنے سے مگر
رب کی رحمت و رضاء سے جو شفاعت آئی
جب بھی حسنین کے جلوؤں کی تجلی دیکھی
دو جہانوں کے شہنشاہ کی شباہت آئی
انکی تعریف میں کچھ پھول چنے ہیں میں نے
نعت کہنے کی مجھے گویا اجا زت آئی
نہ ہی آداب سخن کے نہ فہم اور نہ زباں
سوچ کر ہی مجھے اشہر ہے ندامت آئی