عمر گزرتی ہے عشق کی جستجو میں
دل میں بیٹھا ہو تو پھر جستجو کیسی
خود کو پہنچاننےکی منزل سے گزرا نہیں
اس کو پہچاننے کی پھر آس کیسی
میری تگ و تاز ہے فلک کے اس پار
میں شیطان نہیں, پھر ستاروں کی مار کیسی
طلوع_ آفتاب میں، غروب_ آفتاب میں
حاصل ! سحرہی نہ ہوئی، جستجو کی شام کیسی
جہاں بھی اپنے مدار میں گردش میں ھے
گردش_ ایام تجھ سے پھر شکایت کیسی
ڈر اور خوف دل کیلئے بنے ہی نہیں
پھر دل کی بستی میں خوف کی فضا کیسی
تن_ خاک کی غذا ہے صرف آسودگی
چھپی یہ تڑپ میں دل کی آسودگی کیسی
ستاروں سے ٹکراکر نظر بار بار لوٹ آتی ہے
اس قید سے باہر کی ہے زندگی کیسی