عکس کتنے اتر گئے مجھ میں
پھر نہ جانے کدھر گئے مجھ میں
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں
میں وہ پل تھا جو کھا گیا صدیاں
سب زمانے گزر گئے مجھ میں
یہ جو میں ہوں ذرا سا باقی ہوں
وہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں
میرے اندر تھی ایسی تاریکی
آ کے آسیب ڈر گئے مجھ میں
پہلے اترا میں دل کے دریا میں
پھر سمندر اتر گئے مجھ میں
کیسا مجھ کو بنا دیا عمارؔ
کون سا رنگ بھر گئے مجھ میں