عید مبارک ہو، مسکرائو کہ عید کا دن ہے
تم یوں نہ شرمائو کہ عید کا دن ہے
چاند رات کا پیرہن ہو نہ آج کے دن
سانولی گھونگھٹ اٹھائو کہ عید کا دن ہے
طرب کی بزم ہے سنو نا آج کے دن
اور کچھ دیر ٹھر جائو کہ عید کا دن ہے
پیمان جنوں ہونٹوں کو ترسائے گا کب تک
لب سے لب شیریں ملائو کہ عید کا دن ہے
جاناں تم اپنی اک ہتھیلی پہ اپنے نام لکھو اور
ایک ہتھیلی پہ حنا سجائو کہ عید کا دن ہے
جاوید حروف محبت، پیام وفا، سخن دید نئی کوئی
غزل کی دھن میں سنائو کہ عید کا دن ہے