تجھ سے بچھڑ کر بھی زندہ تھا
مر مر کر یہ زہر پیا ہے
چپ رہنا آسان نہیں تھا
برسوں دل کا خون کیا ہے
جو کچھ گزری جیسی گزری
تجھ کو کب الزام دیا ہے
اپنے حال پہ خود رویا ہوں
خود ہی اپنا چاک سیا ہے
کتنی جانکاہی سے میں نے
تجھ کو دل سے محو کیا ہے
سناٹے کی جھیل میں تو نے
پھر کیوں پتھر پھینک دیا ہے