اسی حالات میں ان غمزدوں کی عید کیا ہوگی
کسی نادار کے بھوکے بچوں کی عید کیا ہوگی
کبھی تن پے نہیں کپڑے کبھی چولہا نہیں جلتا
بتاؤ تو بھلا ان بےبسوں کی عید کیا ہوگی
نہ بلبل کے ترانے ہیں نہ خوشبو کے فسانے ہیں
خزاں چھائی ہے گلشن میں گلوں کی عید کیا ہوگی
ابھی تک منتظر ہیں چوڑیاں مہندی بھی کاجل بھی
نہیں پہنے گئے ان پائلوں کی عید کیا ہوگی
غم_دنیا غم_جاناں سے فرصت ہی نہیں ملت
غم_دوراں میں الجھے غمزدوں کی عید کیا ہوگی
ادھورے خواب آنکھوں کے ابھی تک ہیں ادھورے ہی
ادھوری رہہ گئیں ان چاہتوں کی عید کیا ہوگی