غبار دشت طلب میں ہیں رفتگاں کیا کیا
چمک رہے ہیں اندھیرے میں استخواں کیا کیا
دکھا کے ہم کو ہمارا ہی قاش قاش بدن
دلاسے دیتے ہیں دیکھو تو قاتلاں کیا کیا
گھٹی دلوں کی محبت تو شہر بڑھنے لگا
مٹے جو گھر تو ہویدا ہوئے مکاں کیا کیا
پلٹ کے دیکھا تو اپنے نشان پا بھی نہ تھے
ہمارے ساتھ سفر میں تھے ہمرہاں کیا کیا
ہلاک نالۂ شبنم ذرا نظر تو اٹھا
نمود کرتے ہیں عالم میں گل رخاں کیا کیا
کہیں ہے چاند سوالی کہیں گدا خورشید
تمہارے در پر کھڑے ہیں یہ سائلاں کیا کیا
بچھڑ کے تجھ سے نہ جی پائے مختصر یہ ہے
اس ایک بات سے نکلی ہے داستاں کیا کیا
ہے پر سکون سمندر مگر سنو تو سہی
لب خموش سے کہتے ہیں بادباں کیا کیا
کسی کا رخت مسافت تمام دھوپ ہی دھوپ
کسی کے سر پہ کشیدہ ہیں سائباں کیا کیا
نکل ہی جائے گی اک دن مدار سے یہ زمیں
اگرچہ پہرے پہ بیٹھے ہیں آسماں کیا کیا
فنا کی چال کے آگے کسی کی کچھ نہ چلی
بساط دہر سے اٹھے حساب داں کیا کیا
کسے خبر ہے کہ امجدؔ بہار آنے تک
خزاں نے چاٹ لیے ہوں گے گلستاں کیا کیا