غرور جس نے کیا جہاں میں خدا نے نیچا دکھا دیا
عروج اس کو ملا جہاں میں خودی کو جس نے مٹا دیا
ذرا تو فرعون کو ہی دیکھو کیا تھا دعویٰ خدائی کا
اسے تو لشکر سمیت اس کے خدا نے کیسے ڈبا دیا
جلے کسی کا نہ آشیانہ یہی یقینی بنانا ہے
جلے گا سب کا ہی آشیانہ جو ایک کو بھی جلا دیا
کبھی کسی کا تو گھر جلے نہ خاموش بن کر رہیں کبھی
زیاں کسی کا نہ ہو کبھی تو اسی پہ سب کو جما دیا
کسی کی تیرِ نظر نے دل کو تو ایسے بسمل بنا دیا
کہ جیسے ماہی بے آب ہو بس تڑپنا ویسے سکھا دیا
یوں زندگی کا سفر ہمیشہ تو اثر نے طے کیا ہی ہے
کبھی ملا کوئی تشنہ لب تو جامِ محبت پلا دیا