زندگی کو برت کر اس کے راز سے واقف ہوئی
میں خاموش ہوئی تو ہر آواز سےواقف ہوئی
سر اٹھا کر اُڑتے پنچھیوں کو دیکھنا تھا آساں
خود پرواز کی تو کرب پرواز سے واقف ہوئی
مجھے دکھ و خوشی کی موسیقی میں نہ تھی تمیز
خود پہ گزری تو دونوں کے ساز سے واقف ہوئی
مجھ پر لوگ ہنستے ہنستے کر جاتے طنز بہت
میں ناداں کب ریاکاری الفاظ سے واقف ہوئی
لہجے میں پیار دل میں ہر شخص عداوت رکھتا
بہت دیر بعد میں اس شہر کے انداز سے واقف ہوئی
دور رہ کر نہ جان سکی اس کی فطرت
قریب رہ کر میں اس دغاباز سے واقف ہوئی
ابتداء میں ہی تو نے انجام اپنا دکھا دیا
اے محبت میں کب تیرے آغاز سے واقف ہوئی
دو قدم چلی تو وہ چار قدم چل کر آیا فرح
میں اب جاکر اپنے ربِ کارساز سے واقف ہوئی