غزل کی شکل میں اِک بات ہے سنانے کی
اِک اُس کا نام ہے وجہ یوں مسکرانے کی
اِس طرح رابطہ قائم ہے اُن کی محفل سے
اب قید ہٹ گئی تصوّر میں آنے جانے کی
زمانہ چھوٹتا ہیں چھوٹ جائے کیا پروا،
بس اک فریب خوردہ جان ہیں زمانے کی.
کیوں آپ دے رہے ہیں مجھ کو لالچِ دنیا،
میں پیر زاد ہوں حاجت نہیں خزانے کی.
ہمت ہی دب گئی واعظوں کی یہ سُن کر،
ہمّت نہیں مجھے حق بات کو چھپانے کی.
دنیا بدل گئی جب سے میں ہو گیا اُن کا،
عجب یہ شان ہے مرشد سے دل لگانے کی.
یہی تو عرض ہے بسمل کی بعد مرنے کے،
تن خاک میں ملیں حیدر کے آستانے کی