(دوسرا شعر فارسی سے ماخوذ ہے)
ہرگز نگہ حریصِ کوہ و دمن نہیں ہے
چاہت ہمیں سوائے چاہِ ذقن نہیں ہے
اے عندلیبِ ناداں مت شور کر یہاں پر
نازک مزاج ہیں وہ، تابِ سخن نہیں ہے
پردیس میں ہمیشہ رہتی ہے اِک کمی سی
سب کچھ ہے واں میسر، صبحِ وطن نہیں ہے
کر دے گا چاک اِس کو پھر سے جنوں ہمارا
بندِ قبا ہے یارو، بندِ کفن نہیں ہے
ہے بوسہِ بتاں میں تیرا علاج واعظ
شیریں سخن نہیں جو شیریں دہن نہیں ہے