غزلیں تو کہی ہیں کچھ ہم نے ان سے نہ کہا احوال تو کیا
کل مثل ستارہ ابھریں گے ہیں آج اگر پامال تو کیا
جینے کی دعا دینے والے یہ راز تجھے معلوم نہیں
تخلیق کا اک لمحہ ہے بہت بیکار جئے سو سال تو کیا
سکوں کے عوض جو بک جائے وہ میری نظر میں حسن نہیں
اے شمع شبستان دولت! تو ہے جو پری تمثال تو کیا
ہر پھول کے لب پر نام مرا چرچا ہے چمن میں عام مرا
شہرت کی یہ دولت کیا کم ہے گر پاس نہیں ہے مال تو کیا
ہم نے جو کیا محسوس کہا جو درد ملا ہنس ہنس کے سہا
بھولے گا نہ مستقبل ہم کو نالاں ہے جو ہم سے حال تو کیا
ہم اہل محبت پا لیں گے اپنے ہی سہارے منزل کو
یاران سیاست نے ہر سو پھیلائے ہیں رنگیں جال تو کیا
دنیائے ادب میں اے جالبؔ اپنی بھی کوئی پہچان تو ہو
اقبالؔ کا رنگ اڑانے سے تو بن بھی گیا اقبالؔ تو کیا